کورونا وائرس :بائیولوجیکل ہتھیارہے یا قدرتی آزمائش ہے؟

کورونا وائرس :بائیولوجیکل ہتھیارہے یا قدرتی آزمائش ہے؟


May,4/2020





حالیہ کچھ عرصے میں پوری دنیا  کے عوام کو شدید ازیت میں مبتلا کرنے والے  کورونا وائرس کے حوالے سے تاحال یہ بحث جاری ہے کہ کیا کورونا وائرس کسی تجربہ گاہ سے نکلا ہوا ایک حیاتیاتی ہتھیار ہے یا پھر ایک قدرتی  ہے ؟ عالمی ادارہ براےصحت کے حکام کے مطابق تمام دستیاب شواہد بتاتے ہیں کہ کورونا وائرس کا ماخذ ایک جاندار ہے اور یہ کسی تجربہ گاہ میں تیار نہیں کیا گیا ہے ۔جاندار سے متعلق بھی مکمل رائے ابھی تک سامنے نہیں آ سکی ہے البتہ ممکنہ طور پر چمگادڑ اور پینگولین کو وائرس کا سبب قرار دیا جا سکتا ہے۔ معروف طبی ماہرین ” دی لانسیٹ” میں فروری کے دوران معروف ماہر امراض کرسٹین ڈروسٹین کی سربراہی میں دنیا کے 26 ممتاز سائنسدانوں کا اس حوالے سے ایک مشترکہ بیان سامنے آیا جس میں انہوں نےکہا کہ دنیا بھر میں وائرس کی تحقیق سے متعلق شفاف معلومات کا تبادلہ کیا جا رہا ہے مگر افواہوں اور غلط معلومات کے باعث اس تعاون کو خطرات کا سامنا ہے۔بیان میں کہا گیا کہ وائرس قدرتی ہے اور اس حوالے سے دیگر سازشی نظریات کی حوصلہ شکنی کی جانی چاہیے جو دنیا بھر میں بے چینی کا سبب بن رہے ہیں۔ 

دنیا بھر میں ماہرین کی جانب سے وائرس کی جینیاتی ساخت سے متعلق شائع کردہ تحقیقی رپورٹ میں بھی وائرس کا ماخذ جنگلی حیات کو قرار دیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ انسانی عمل دخل کے کوئی شواہد نظر نہیں آتے ہیں۔اسی طرح مارچ کے وسط میں سویڈن کے تحقیقی ادارے سے وابستہ معروف مائیکروبائیولوجسٹ کرسٹیان اینڈرسن نے بھی طبی جریدے ” نیچر میڈیسن” میں ایک تحقیقی رپورٹ میں لکھا کہ وائرس کسی لیبارٹری میں تیار نہیں کیا گیا ہے اور نہ ہی وائرس کی ساخت میں ارادی طور پر تبدیلیاں کی گئی ہیں۔یونیورسٹی آف ہیمبرگ جرمنی سے وابستہ پروفیسر گینر جیری میاس کے مطابق تو دنیا کی کوئی بھی بہترین لیبارٹری ایسے وائرس تیار نہیں کر سکتی ہے۔  کورونا وائرس کے پھیلاو کے حوالے سے ابتدائی مرکز ووہان کا ذکر بھی دنیا بھر میں کیا گیا اور بعد میں اسی شہر کے ایک ادارے ” ووہان انسٹیٹیوف آف وائرولوجی” پر مختلف حلقوں نے انگلیاں اٹھائیں کہ تجربہ گاہ میں انسانی غلطی یا کسی حادثے کے باعث وائرس کا اخراج ہوا ہے۔اس ادارے سے وابستہ محقیقین نے ایسے دعووں کو بے بنیاد اور مضحکہ خیز قرار دیا ہے۔ ” ووہان انسٹیٹیوف آف وائرولوجی” کا قیام انیس سو چھپن میں عمل میں لایا گیا تھا اور اسے چین سمیت ایشیا بھر میں اعلیٰ ترین بائیو سیفٹی لیب کا درجہ حاصل ہے۔یہاں دنیا میں مہلک ترین پیتھوجین سے متعلق تحقیق کی جا سکتی ہے۔یہ لیبارٹری ووہان شہر کے مرکز سے تیس کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ ادارے سے وابستہ ماہرین بھی واضح کر چکے ہیں کہ لیبارٹری میں عالمی معیارات کے حامل سیکیورٹی نظام کے باعث وائرس کا اخراج بالکل ناممکن ہے ۔ماہرین کے مطابق تیس دسمبر کو نوول کورونا وائرس سے متاثرہ اولین مریضوں کے نمونہ جات بھیجنے سے پہلے تک لیبارٹری میں اس نئے طرز کے وائرس پر تحقیق نہیں کی گئی ہے اور نہ ہی ادارے کا کوئی اہلکار وائرس سے متاثر ہوا ہے۔ عالمی سطح پر متعدی امراض پر تحقیق کرنے والے معروف ماہر پیٹر ڈیسزیک پندرہ سال تک ” ووہان انسٹیٹیوف آف وائرولوجی” کے ساتھ تعاون کرتے رہے ہیں،انہوں نے بھی حال ہی میں ایک بیان میں لیبارٹری سے وائرس کے اخراج سے متعلق قیاس آرائیوں کو حماقت قرار دیا۔انہوں نے مزید کہا کہ اس نئی طرز کے وائرس کی لیبارٹری میں تیاری ناممکن ہے۔ بیس اپریل کو دو امریکی صحافیوں نے ” گروے زون” میں ایک تحقیقی رپورٹ میں ” ووہان انسٹیٹیوف آف وائرولوجی” سے وائرس کے اخراج کے امریکی دعووں کوصدر ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے "گمراہ کن” معلومات پر مبنی ہتھیار قرار دیا ۔

اسے عراق میں تباہ کن ہتھیاروں کی موجودگی سے متعلق غلط معلومات سے تعبیر کیا گیا جسے امریکہ نے عراق پر حملے کے لیے ایک جواز کے طور پر استعمال کیا مگر بعد کے حقائق نے ثابت کیا کہ عراق کے پاس کسی قسم کے خطرناک ہتھیار سرے سے موجود ہی نہیں تھے۔ حالیہ عرصے میں ایک رحجان یہ بھی سامنے آیا کہ نوول کورونا وائرس کو امریکہ سمیت چند مغربی حلقوں کی جانب سے "چائنیز وائرس” اور "ووہان وائرس” بھی قرار دیا گیا۔عالمی سطح پر وائرس کے آغاز سے متعلق تحقیق بدستور جاری ہے۔ہاں یہ بات درست ہے کہ سب سے پہلے چین کے شہر ووہان میں  کورونا وائرس کے کیسز سامنے آئے مگر یہ لازمی نہیں کہ ووہان ہی وہ جگہ ہو جہاں وائرس نے جنم لیا ہو۔ماضی میں بھی ہم نے دیکھا کہ HIV انفیکشن سب سے پہلے امریکہ میں رپورٹ ہوا لیکن اس کی شروعات ممکنہ طور پر مغربی افریقی ممالک میں ہوئی۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی ادارہ صحت نے سال 2015 میں انسانی متعدی امراض کو باقاعدہ نام دینے کے لیے سفارشات جاری کیں تاکہ کسی ملک ، خطے ،فرد حتیٰ کہ کسی جاندار کے نام کے استعمال کی بھی حوصلہ شکنی ہو۔ معروف سائنسی جریدے ” نیچر ” نے سترہ اپریل کو اپنے اداریے میں کرونا کو کسی مخصوص مقام سے جوڑنے کے

Previous Post Next Post